کبھی کبھی ایک بےچین سی خاموشی دل کے اندر یوں بس جاتی ہے کہ لفظ کم لگتے ہیں اور صداؤں میں کوئی ایسا رنگ بولنے لگتا ہے جو صرف دل محسوس کرتا ہے۔ “نوشت” ایک ایسی ہی کہانی ہے۔ایک نابینا لڑکی، ایک بےچہرہ آواز، ایک گمنام صدا اور ایک مکتوب جو کبھی لکھا نہیں گیا مگر سن لیا گیا۔
میں نے یہ افسانہ اس وقت تخلیق کیا جب ذہن میں ایک سوال گونجا، کیا ہم اس صدا کو پہچان سکتے ہیں جو ہماری قسمت میں لکھی گئی ہو، چاہے وہ صدا آنکھوں سے نظر نہ آئے؟ یہی سوچ “نوشت” کی بنیاد بنی۔
یہ صرف محبت کی کہانی نہیں، یہ مقدر، سننے اور سنائے جانے کی کہانی ہے۔ میں نے چاہا کہ یہ افسانہ محض جذباتی نہ ہو، بلکہ اس میں اللہ کی حکمت، قرآن کی روشنی اور انسان کی ٹوٹی ہوئی امیدوں کے درمیان پلٹنے والی “صدا” کو محسوس کیا جائے۔ “نوشت” لکھتے ہوئے میں نے جانا کہ کچھ تحریریں صرف کاغذ پر نہیں، روح پر لکھی جاتی ہیں اور شاید یہی میری وہ تحریر تھی۔
ایک ایسی صدا جو شاید آپ کی قسمت میں بھی لکھی ہو۔